آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے مصنفہ عصمت چغتائی پر لیکچر “اردو فکشن کی پہلی باغی عصمت چغتائی ” کا انعقاد

آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے مصنفہ عصمت چغتائی پر لیکچر “اردو فکشن کی پہلی باغی عصمت چغتائی ” کا انعقاد

 

ہمارے سماج میں سوچنے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے اس میں ناصر عباس نیئر جیسے لوگوں کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیں ہے ،صدر آرٹس کونسل محمداحمد شاہ

بغاوت، صداقت ، جرات اور شرارت عصمت چغتائی کی کہانیوں میں نظر آتا ہے ،معروف شاعرہ زہرا نگاہ

عصمت کہا کرتی تھیں کہ مرد عورت کو دیوی بناسکتا ہے مگر برابری کا درجہ نہیں دے سکتا۔معروف ادیب ناصر عباس نئیر

کراچی ( indu icon)آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی جانب سے مصنفہ عصمت چغتائی پر لیکچر “اردو فکشن کی پہلی باغی عصمت چغتائی ” کا انعقاد حسینہ معین ہال میں کیا گیا۔پروگرام میں صدارت کے فرائض معروف شاعرہ زہراہ نگاہ نے انجام دیے جبکہ نظامت کے فرائض عنبریں حسیب عنبر نے انجام دیے ،تقریب میں معروف ادیب ناصر عباس نیر نے عصمت چغتائی پر لیکچر دیا،پروگرام میں صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ،نورالہدیٰ شاہ، تنویر انجم، فاطمہ حسن، انور سن رائے، عذرا عباس، افضال احمد،ناصرہ زبیری سمیت دیگر اہل دانش شریک تھے۔صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ نے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ ہمارے سماج میں سوچنے کا رواج ختم ہوتا جارہا ہے اس میں ناصر عباس نیئر جیسے لوگوں کا ہونا کسی نعمت سے کم نہیںہے آج کل بات چیت کی روایت کم ہوتی جارہی ہے۔پہلے عوامی دانش کی روایت ہوتی تھی ، اس میں قمر جلیل، سلیم احمد، رئیس امروہی، شوکت صدیقی سمیت بیشتر لوگ گھروں اور ہوٹلوں میں سارے ادیب بیٹھا کرتے تھے۔کوئٹہ پیالہ ہوٹل پر بھی بڑے بڑے ادیب بیٹھا کرتے تھے۔زر کی معیشت اور افراتفری کی وجہ سے یہ رجحان کم ہوتا جارہا ہے۔جتنی بھی اعلیٰ اقدار ہیں جس نے ہزاروں سال لگاکر اس تہذیب کو پروان چڑھانے کی کوشش کی یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس کو قتل کر دینا چاہیے کسی شرافت اور اعلیٰ اقدار کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ علم کی فضیلت اور عزت کی، دانشور کی،ادیب و شاعر کی،یہ سماج میں ہیں ہی کیوں۔اگر یہ لوگ نہیں ہوں گے تو کون سا کاروبارِ زندگی رکے گا۔مشینیں چلتی رہیں گی، پیسے بنتے رہیں گے۔ہمیں بیٹھک کی روایت کو برقرار رکھنا چاہیے۔ایک شام ہم زہرا آپا کے نام کریں گے جس میں وہ اپنے قصہ کہانیاں ہمیں سنائیں گی20ستمبر کو میر تقی میر صاحب کی برسی ہے 23ستمبر کو شاندار پروگرام کا انعقاد کریں گے۔میں چاہتا ہوں ایک شام عبدالستار ایدھی اور ادیب الحسن رضوی کے حوالے سے ہو جائے کہ معاشرے میں ان کا کیا کردار رہا۔معروف شاعرہ زہرا نگاہ نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں کوئی تنقید نگار نہیں ، عصمت آپا کے افسانے تقریباً حفظ ہیں۔میرا دل چاہتا ہے کہ احمد شاہ اردو کے بڑے لکھنے والوں کے منتخب افسانوں کی ریکارڈنگ کروائیں، جس میں لہجہ، تلفظ، ان کا متن اور مطلب واضح ہو۔مختصر کہانیاں سنانے اور پڑھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ عصمت چغتائی کے کردار ان کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑے رہے اور یہ التجا کرتے تھے کہ خدا کے لیے عصمت چغتائی ہمارا قصور معاف کردو یا زندہ رہنے دو یا دوبارہ مار دو۔عصمت آپا کہتی ہیں کہ مر جاو¿ابھی تو پھر بعد میں زندہ ہو لینا۔اس طرح اپنے فن کا احترام کرنا اور اپنے اندازِ تحریر کو بچانا یہ بہت بڑے لکھنے والوں کا کام ہوتا ہے۔میں عصمت چغتائی کو جتنا بھی جانتی ہوں یہ میرے لیے بہت اعزاز کی بات ہے۔بغاوت، صداقت ، جرا¿ت اور شرارت ان کی کہانیوں میں نظر آتا ہے۔عصمت چغتائی کو کہانیوں کے لیے کہیں باہر جانا نہیں پڑتا تھا۔ان کے قلم کے ساتھ لوگوں نے بات کی، عصمت آپا کی گفتار میں بہت طاقت تھی۔عصمت چغتائی شعلوں میں نہائی اور تروتازہ رہیں۔تقریب میں ناصر عباس نیئر نے لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ محمد احمد شاہ نے جو لیکچرز کا آغاز کیا ہے وہ قابل تعریف ہے عصمت چغتائی نے 80سال پہلے لوگوں کو بتانا شروع کیا کہ عورت بھی بغاوت کرسکتی ہے اس سے پہلے جتنی بغاوت ہوئیں وہ جنگوں میں ہوئیں، سماج میں ہوئیں اور مردوں نے کیں۔ایک ایسی عورت جس کو سب سے پہلے اس کی ماں نے چھوڑا۔عصمت کی ماں انہیں کہتی تھیں کہ دو بچے مر گئے تم کیوں نہیں مریں۔وہ اپنی آپ بیتی ”کاغذی ہے پیراہن“ اردو کی چند تخلیقی آپ بیتیوں میں شامل ہے۔اس میں وہ لکھتی ہیں کہ میرے والد میری بات سن کر قائل ہوجاتے تھے مگر والدہ تھیں جنہوں نے پیدا ہونے کے بعد مجھے رد کردیا۔اَننا کے حوالے کیا وہ بھی چھوڑ کر چلی گئیں، بہن کے حوالے کیا وہ بھی شادی کے بعد چلی گئیں،پھر وہ تقدیر کے حوالے ہوگئیں۔ عصمت چغتائی کو میٹرک کے بعد ان کے والد نے آگے تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا۔عصمت چغتائی نے کہاکہ اگر آپ مجھے کالج میں داخل نہیں کروائیں گے تو میں مشن اسکول میں چلی جاو¿ں گی اور وہاں جاکر عسائیت قبول کرلوں گی۔ پھر وہ مجھے مشن اسکول میں داخل کروادیں گے اور وہی پڑھ لوں گی۔عصمت چغتائی نے ایسے حالات کا سامنا کرتے ہوئے یہ سبق دیا کہ اگر عورت کو جرا¿ت کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو معاشی طور پر اپنے پیروں پر کھڑا ہونا ہے۔ان کی طبیعت میں ایک بغاوت تھی۔ والد اور بھائی سے انہیں بہت سپورٹ حاصل رہی۔1932میں دو کتابیں چھپی ان دونوں کتابوں کا اثر عصمت چغتائی کی بغاوت پر ہے۔وہ کہتی تھیں کہ میں نے زندگی کی گھٹن اور زیادتی کا منہ توڑ جواب دیا ہے۔مغربی عورت ہو یا مشرقی عورت جوتے کھاتی ہے اور چوں تک نہیں کرتی تو اس پر غصہ کرنا واجب ہے۔مرد عورت کو دیوی بناسکتا ہے مگر برابری کا درجہ نہیں دے سکتا اس بات کا مجھے افسوس ہے۔جو عورت خود مختار ہو وہ کسی سے نہیں ڈرتی۔انہوں نے اپنے نظریے کو اپنے تجربے کی بنیاد بنایا، عورت کو آخری سانس تک لکھا۔وہ کہتی تھیں کہ میں وہی لکھتی ہوں جو دیکھتی ہوں۔ان کی زبان ایسی ہے کہ ایک عورت بہت سارے لوگوں کو کہانی سنا رہی ہو۔انہوں نے مشکل راستوں کا اختیار کیا۔اردو فکشن بے گھر تھا عصمت چغتائی نے پہلی مرتبہ اردو فکشن کو گھر دیا۔شیما کرمانی نے اقتباس پڑھ کر سنایا

 

پاکستان نیوز 

 

Share

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *